سلسلہ درسِ ضیاءالقران
از حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری علیہ الرحمۃ
قسط 110 سورہ البقرة آیات نمبر 166،167،168
بسم اللہ الرحمن الرحیم
إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ (166)
ترجمہ:
جب بیزار ہوجائیں گے وہ جن کی تابعداری کی گئی ان سے جو تابعداری کرتے رہے اور دیکھ لیں گے عذاب کو اور ٹوٹ جائیں گے ان کے تعلقات ۔
وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوا مِنَّا ۗ كَذَٰلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ ۖ وَمَا هُم بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ (167)
ترجمہ:
اور کہیں گے تابعداری کرنے والے کاش ! ہمیں لوٹ کر جانا ہوتا (دنیامیں ) تو ہم بھی بیزار ہوجاتے ان سے جیسے وہ (آج) بیزار ہوگئے ہیں ہم سے یونہی دکھائے گا انھیں اللہ تعالیٰ ان کے (بُرے) اعمال کہ باعث پشیمانی ہوں گے ان کے لیے اور وہ (کسی صورت میں) نہ نکل پائیں گے آگ (کے عذاب) سے۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ (168)
ترجمہ:
اے انسانو! کھاؤ اس سے جو زمین میں ہے حلال (اور) پاکیزہ (چیزیں ) اور شیطان کے قدموں پر قدم نہ رکھو بےشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے
تفسیر: آج کی ترقی یافتہ دنیا میں کھانے اور استعمال کی چیزوں میں صفائی کا اہتمام کیا جانے لگا ہے لیکن حلال وحرام کی تمیز اب بھی نہیں۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو دونوں باتوں کے اہتمام کا حکم دیا ۔ یعنی ظاہری طور پر بھی غلیظ اور گندی نہ ہوں تاکہ جسمانی صحت پر برا اثر نہ پڑے اور باطنی طور پر بھی نجس اور پلید نہ ہوں تاکہ ضمیر انسانی دم نہ توڑ دے۔ ظاہری صفائی کو قرآن نے طیب کے لفظ سے اور حقیقی پاکیزگی کو حلال کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ اور حلال اس چیز کو کہتے ہیں کہ نہ تو ذاتی طور پر حرام ہوجیسے حرام جانور، مردار، شراب وغیرہ اور نہ ایسے طریقوں سے حاصل کی گئی ہو جن کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے مثلاً چوری، جوا خواہ وہ کلبوں میں ہو۔ رشوت ، سود وغیرہ وغیرہ اسلامی نظام معاشیات کا یہ ایک بنیادی اصول ہے۔ کسب معاش کے لئے کھلی چھٹی نہیں بلکہ تمام وہ راستے بند کر دئیے ہیں جن میں کسی کی کمزوری ، مجبوری اور ناداری سے ناجائزفائدہ اٹھایا جاتا ہو۔ آپ خود سوچیں جب سود، جوا، رشوت اور بلیک مارکیٹنگ وغیرہ کے چور دروازے بند ہو جائیں تو کیا دولت سکڑ کر صرف چند افراد کے ہاتھ میں جمع ہو جائے گی! دولت کی ناجائز تقسیم بلکہ لوٹ کھسوٹ جن معاشی، اخلاقی اور سیاسی خرابیوں کو جنم دیتی ہے وہ اہل علم سے پوشیدہ نہیں۔ کاش ہم اس الٰہی نظام کو خود سمجھتے ۔ سنجیدگی سے اس پر عمل کر کے دکھاتے تاکہ دوسری قوموں کو سمجھا سکتے۔
والسلام